دو روٹیاں


SUBMITTED BY: ijazsial

DATE: Dec. 24, 2020, 3:05 a.m.

FORMAT: Text only

SIZE: 4.5 kB

HITS: 1170

  1. دو روٹیاں
  2. میں روٹی کھاتے ہوئے بغور اُس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اپنی ایک روٹی پکانے کے بعد اُس نے دو زائد روٹیاں پکا کر دسترخوان میں لپیٹ دیں۔
  3. “جانے کس یار کے لیئے روٹی پکا کر رکھتی ہے۔ دوپہر کے وقت دسترخوان خالی ہوتا ہے کچھ دن پہلے ہی تو اچار ڈالا تھا۔ اچار کا ڈبہ بھی خالی ہوتا جا رہا ہے۔ میرے بچے کی کمائی جانے کس پر لُٹا رہی ہے” پچھلے کمرے سے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں اس کی سرگوشیاں میرے دل کو کھاتی جاتی ہیں۔ اماں کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ بدلی بدلی تو وہ مجھے بھی لگ رہی تھی، دوپٹے کی بکل مارے نکھری صبح جیسی۔ کنگھی چوٹی کیئے سیدھی مانگ کے ساتھ چمکتا چہرہ میں نے آج کتنے دنوں کے بعد غور سے اُسے دیکھا، اس کا چہرہ یوں چمکتا تو نہ تھا۔ ناآسودگی اور کاموں کے بوجھ سے تھکی ہاری ایک عورت یوں مطمئن رہنے لگی تھی کچھ تو تھا جو اس کے چہرے کی چمک کاباعث بن گیا تھا۔ بستر پر بچھی چادریں صاف رہنے لگیں تھیں، پرانی اور گھسی ہوئی چادریں بھی اگر صاف ہوں مایا لگی ہو تو گھر اُجلا اُجلا دکھنے لگتا ہے یوں جیسے چاندنی کمروں میں اُتر آئی تھی۔
  4. صحن کے کونے میں بنا باورچی خانہ بھی اُس کی طرح بدلا بدلا سا تھا۔ چولہے کے گرد بکھری راکھ سمٹنے لگی تھی بیلنا چکلا جو یونہی چولہے کے گرد رُلتے رہتے تھے اب پڑچھتی پر دلہا بن کر بیٹھتے۔ بکھرا خشک آٹا یوں سمیٹ کر واپس خشکے والے ڈبے میں ڈالتی جیسے مانگ کا سیندور ہو۔ آٹے کا کئی سال پرانا کنستر سفید رومال کے نیچے لکڑی کی چوکی پر معتبر بنا بیٹھا تھا جیسے گھر کا بوڑھا بزرگ۔
  5. میں صبح کا گیا شام کو تھکا ہارا گھر آتا میری خود سے ملاقات بھی کم کم ہی ہوا کرتی تھی اس کی طرف دھیان کیا کرتا اماں کی کئی دن کی شکایت پر آج غور سے دیکھا تو جانا بدلی بدلی تو وہ تھی اور اس کے طور بھی۔۔۔! مگر لُٹانا اُس نے کیا تھا اور پھر لُٹانے کو اس گھر میں رکھا بھی کیا تھا۔ میری کمائی ہی کتنی تھی۔ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان جس سے بمشکل دال روٹی چلتی۔ وہ تو اُلٹا سلائی کر کے میرا ہاتھ بٹاتی تھی جب سے اس نے سلائی کا کام شروع کیا تھا گھر کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تھی۔ میں چُپ چاپ کئی دن اُس کا جائزہ لیتا رہا۔ اماں کے کہنے میں آ کر میں اُس کی نگرانی کرنے لگا، کان لگا کر اس کی سرگوشیاں سننے لگا اس کا یار جس سے وہ باتیں کرتی تھی۔۔۔! میں تو اس کے مقابل کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ اسے پسند آگئی تھی اور اس کی روٹیاں بھی، تبھی تو وہ روزانہ اس سے مانگنے چلا آتا۔ اس کی سرگوشیوں نے میرے دل کو بھی کھانا شروع کر دیا۔ میرا دل میری آنکھوں کے راستے رسنے لگا اس کا ذائقہ میٹھے آم جیسا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ “استانی جی سے سلائی کا کام لینے گئی وہ تو ہر وقت تیری ہی باتیں کرتی ہیں جانے تونے کیا گھول کر پلا دیا ہے انہیں، ہر بات تیری، تجھ سے شروع تجھ پر ہی ختم، ہر وقت تیریاں گلاں،
  6. لگتاہے تو بہت پیار کرتا ہے اُن سے، پیارا تو تو مجھے بھی بہت ہے سب سے زیادہ حتیٰ کہ اپنے کاکے سے بھی زیادہ۔۔۔! استانی جی کہتی ہیں تو بھیس بدل کر ملنے چلا آتا ہے۔ دیکھ میں گھر ہر وقت صاف رکھتی ہوں جانے کب تو چلا آئے؟ ڈرتی ہوں یہ نہ ہو میں پہچان نہ پاؤں اشارہ کر دینا، دیکھ مجھ سے بھول نہ ہو جائے چُوک نہ جاؤں تو کر دے گا نا اشارہ”
  7. اس کی یہ بات سن کر میرا چہرہ سرخ ہو گیا، مگر دم سادھے میں سنتا رہا اس کے اظہارِ محبت اس کی بے تابیاں اس کی باتیں کچھ عجیب سی تھیں لہجے کی نمی میں سمندر گھلے تھے۔ میں اس کی باتیں سنتا ان سمندروں میں ڈوب رہا تھا۔
  8. “میرا بھی دل کرتا ہے تجھ سے بہت سی باتیں کروں۔ مگر کیاکروں مجھ چار جماعتیں پاس کو باتیں کرنی ہی نہیں آتیں۔ ایک بات تجھے ضرور کہنی ہے۔ میں نے بیاہ سے پہلے روٹی سے زیادہ بھوک کھائی ہے۔ جب سے بیاہ کر اس گھر میں آئی ہوں بھوک سے جان چُھٹ گئی ہے۔ بھوکے پیٹ کی درد دردِ زہ سے بھی ظالم تھی مجھ سے برداشت نہ ہوتی تھی، تیرے بنائے نائب نے مُجھے ایک دن بھی بھوکا نہیں رکھا۔ میں کس طرح سے تیرا شکریہ ادا کروں تین وقت کی روٹی کتنی بڑی نعمت ہے یہ مجھ فاقوں ماری سے زیادہ کون جانتا ہے”
  9. اتنے میں گلی سے صدا آئی اللہ کے نام پر بھوکے کو کھانا کھلا دو۔۔۔! وہ باتیں کرتی کرتی تڑپ کر اُٹھی، تسبیح چوم کر ماتھے سے لگائی دسترخوان میں لپیٹی وہی دو زائد روٹیاں اُٹھائیں ، اُن پر اچار رکھااور فقیر کے حوالے کر دیں۔
  10. “اے ابن آدم میں نے تم سے کھانا مانگا تھا مگر تم نے انکار کر دیا؟ بندہ عرض کرے گا باری تعالیٰ! میں بھلا کیسے آپ کو کھانا کھلاتا آپ تو خود ربّ العٰلمین ہیں (کائنات میں موجود لا تعداد مخلوقات کو اکیلے ہی کھانا کھلانے اور پالنے والے ہیں) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانے کا سوال کیا تھا مگر تم نے انکار کر دیا اگر تم اسے کھانا کھلا دیتے تو اسے (اسکا اجر) میرے پاس پاتے“
  11. کچھ ہی دن پہلے اس نے استانی جی کی سنائی اس حدیث کا ذکر کیا تھا۔ جسے اس وقت نیند سے بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ میں نے سنا اور پھر صبح بھول گیا۔ میں روتا تڑپتا رہا۔ شک اور بدظنی کی وہ اک نگاہ بھی کیوں؟ آنکھ پھوٹ ہی جاتی مگر اس کی سفارش مجھے بچا گئی میں جان گیا تھا اچھی طرح جان گیا تھا۔ اس کے یار کو اور اس کے بدلے اطوار کو بھی۔ اُس کا عاجزانہ شکر اسے پسند آگیا تھا۔ وہ کھانا مانگنے چلا آیا اور پھر مستقل اس کا مہمان بن گیا وہ خوش قسمت تھی اُس نے اسے چوکنے نہیں دیا تھا۔
  12. وہ دو روٹیاں زائد نہیں تھیں وہی دو تو کام کی تھیں۔۔۔!

comments powered by Disqus