زبان سے زخم بھی دیتے ہیں کرم بھی کرتے ہیں
نجانے کیوں وہ زخموں کا مرہم بھی کرتے ہیں
جن دوستوں کی خاطر ہم نے لہو جلایا
کبھی کبھی وہ مہرباں ستم بھی کرتے ہیں
نفرت میں بدل ڈالا میرے دوستوں کا پیار
احباب ! میرے لئے بندوبستِ غم بھی کرتے ہیں
خوشیاں ہم کو نہ راس آجائیں کہیں
اِس غرض سے میری انکھوں کو نم بھی کرتے ہیں
مانو؎ کتنا دوستوں کا احسان مند ہوں میں
جب مُجھے غم ہو کوئی، غم میں غم بھی کرتے ہیں۔